سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ شمار نہیں کیا جائے جبکہ جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس مندوخیل نے اختلاف کیا۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سوشل میڈیا کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدم حاضری پر سوشل میڈیا پر میرے خلاف باتیں ہورہی ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیا آرٹیکل ایک مکمل کوڈ ہے، کیا آرٹیکل 63 اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے، کیا پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے ووٹ شمار ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت ایڈوائزری اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے، صدارتی ریفرنس اور قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملےپر رائے مانگی جاسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آرٹیکل 186 میں پوچھا گیا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں ہے، آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں جس پر اٹانی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملی۔
اپوزیشن اتحاد کے حکومت میں آنے کے بعد بھی ان کا مؤقف وہی ہے، اٹارنی جنرل
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں ہے، اپوزیشن کے حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس پر وہی مؤقف ہوگا، جو پہلے تھا، میں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کردیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا، بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا مؤقف ظاہر کرسکتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس، سابق وزیراعظم کی تجویز پر فائل کیا گیا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا یہ کیا حکومت کا مؤقف ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میرا مؤقف بطور اٹارنی جنرل ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے ان کے وکلا موجود ہیں، صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا، قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں، آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔